آج میں جوکہا نی سنا جا رہی ہو ں وہ ایسی خاتون کی ہے جن کی زندگی دکھو ں سے عبار ت ہے ۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑی تھیں ان سے چھوٹے دو بھائی اور پھر دو بہنیں تھیں۔ وہ ابھی مڈل میں تھیں جب اُن کی والدہ کا انتقال ہو گیا یوں انہیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر داری کی ذمہ داری بھی سنبھالنی پڑی ۔ ان کا فرسٹ ائیر میں ایڈمیشن ہوا تو والدکے دستِ شفقت سے بھی محروم ہوگئیں ۔ گو کہ با قی بہن بھائی بہت چھوٹے نہ تھے مگر وہ گھر کی بڑی بن گئیں ۔ پڑھائی زیا دہ دیر جاری نہ رہ سکی او غیر محسو س طریقے سے وہ والدین کی جگہ اپنی ذمہ داریو ں کو نبھانے میں لگ گئیں۔ بھائیو ں کو تعلیم دلا کر اچھی نو کریو ں کے لیے خود خاندان کے لوگو ں کی منتیں کیں ۔ جب وہ بر سر روز گا رہو گئے تو ان کی شا دی کی فکر ستانے لگی ۔ خاندان کے بڑو ں نے بہت مخالفت کی کہ پہلے تمہا ری شا دی کریں گے مگر وہ نہ مانیں کہ اس طر ح گھر کا انتظام کون دیکھے گا ۔ بھا ئیو ں کی شا دی کے بعد اُن کو بہنوں کی فکر ستانے لگی اور پھر ان کی شا دی کر دی ۔ جب ان سے فا رغ ہوئیں تو سب نے شادی کے لیے بہت کہا مگر وہ یہ کہہ کر ٹال گئیں کہ اب اس عمر میں شا دی نہیں کر و ں گی ۔ بھائی اپنی دنیا میں خوش تھے ۔ وہ بہن جس نے ان کے لیے اپنی زندگی تیا گ دی ۔ اس کو دو وقت کی روٹی کے لیے بھابھیو ں کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ بہنیں دیکھ کر بہت کڑھتیں اور شا دی کا مشورہ دیتیں ۔ بھائیو ں کو اس کا بھی خیا ل نہ آیا کہ بہن نے کن دشواریو ں سے ان کو اس مقام تک پہنچا یا مگر اسی کا نام دنیا ہے ۔ وہ گھر میں پڑی کسی فا لتو چیز کی طر ح ہوگئیں۔ حالانکہ ابھی ان کی عمر 40 برس تھی ۔ بہنوں نے بھائیو ں کے رنگ ڈھنگ دیکھے تو اپنے طور سے ان کے لیے رشتے کی تلا ش شروع کر دی ۔ ان کے لیے جس رشتے کا انتخاب ہوا اس آدمی کی بیوی وفات پا چکی تھی اور وہ بے اولا د تھا ۔ بہت وسیع جائیداد و کا روبار کے مالک ہو نے کی وجہ سے اس کے لیے رشتو ں کی کوئی کمی نہ تھی مگر وہ مخلص سا تھی چاہتا تھا ۔ بہر حال دونو ں طر ف سے باہمی پسندیدگی کی بنا پر ان کی شادی ہو گئی اور شا دی کے دو ما ہ بعد ہی وہ ماں بننے کے خواب دیکھنے لگیں ۔اللہ نے بھی انہیں مایو س نہ کیا اور یو ں سب حیران رہ گئے کہ پہلی بیوی پچیس برس کی رفا قت کے باوجو د انہیں وہ خوشی نہ دے سکی اور ان سے چار ماہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی سن لی اوروہ بہت خوش تھے ۔ انہوں نے بیوی سے ایک دن کہا کہ وہ اپنے بچے کا نام عبداللہ رکھنا چا ہتے ہیں اور اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ کہتی کیا پتہ بیٹی ہو تو پھر وہ بڑے یقین سے کہتے کہ نہیں اگر اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں انہیں یہ خوشی دی ہے تو ان شا ءاللہ تعالیٰ بیٹا ہی ہوگا۔ مگر وہ اپنی زندگی کی یہ سب سے بڑی خوشی اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ سکے اور شادی کے چھ ما ہ بعد ہا رٹ ٹیک ہو اجو جان لیوا ثا بت ہو ا ۔ ان کی بیوی کو سکتہ ہو گیا بہت دیر بعد جو حوا س قابو میں آئے تو اپنے ارد گرد انسانوں کی شکل میں گدھ نظر آئے جو انہیں لو ٹنے کے چکر میں تھے جا ئیدا د او ر دولت پر ان کی نظریں تھیں۔ ان میں ان کے بھائی اور بھابھیاں بھی شامل تھیں ۔
اب سب کو یہ فکر ہوئی کہ یہ بچہ دنیا میں نہیں آنا چاہیے کیو نکہ پھر وہ جا ئیداد کا وا ر ث بن جا تا ۔ مختلف حیلو ں ، بہا نو ں سے انہیں غلط ادویا ت دی گئیں مگر خدائے بر تر کے فیصلو ں کے آگے کس کا کب زور چلا ہے ۔ جس دن انہو ں نے بیٹے کو جنم دیا سوائے ان کے، کوئی خوش نہ تھا۔ انہو ں نے اپنے بیٹے کی پرورش اسی انداز سے کی جس طر ح ان کے مر حوم شوہر چاہتے تھے ۔ سب کچھ بھول کر وہ صر ف اور صرف اپنے بیٹے کے لیے زندگی بسر کر رہی ہیں تا کہ اپنے شو ہر کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہو تا دیکھ سکیں ۔ ابھی ان کا بیٹا فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ ہے ۔ مگر بہت لائق ہے اللہ کرے اپنے باپ کے خوا ب کو پورے کر سکے ۔ قارئین آپ بھی دعا کیجئے گا کہ وہ اس قابل ہوجائے اور وہ مقام پا لے جس پر دیکھنے کی اس کے والد نے تمنا کی تھی۔ اللہ اسے نظر بد سے بچائے اور اس کی والدہ کو اتنی زندگی دے کہ وہ اسے بھی زندگی گزارنے کا ڈ ھنگ سکھا دیں ۔ اس عظیم عورت کے لیے میرے دل سے تو دعائیں نکلتی ہیں جس نے اپنی خوشیو ں کی بجائے دوسروں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی شاید اسی کے صلہ میں انہیں اللہ نے ” عبداللہ “ دیا ہے۔ عبدا للہ کے لیے ڈھیروں دعائیں کیجئے گا کیونکہ اس کی والدہ نے سب کچھ سہہ کر بھی کسی کو بد دعا نہیں دی ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں